داعی اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی مدظلہ (پھلت):حضرت مولانا عالم اسلام کے عظیم داعی ہیں جن کے ہاتھ پر تقریباً 5 لاکھ سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں۔ ان کی کتاب ’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ پڑھنے کے قابل ہے۔
بخار کے سیزن میں گھر میں سب لوگ بیمار تھے‘ دفتر جانے سے پہلے باپ نے گھر میں پکانے کے لیے کچھ تلاش کیا‘ ڈلیا میں صرف سیب رکھتے تھے‘ اس سے پہلے کہ وہ سیب اٹھاتا‘ ننھا بچہ جو اللہ کے فضل سے بیماری سے بچا ہوا تھا اور کھیل رہا تھا‘ اس نے بڑھ کرڈلیا سے دونوں سیب اٹھالیے‘ باپ نے ایک سیب اسے دینے کیلئے کہا اور اس کے ہاتھ سے سیب لینے کی کوشش کی تو بچہ نے داہنے ہاتھ والے سیب میں دانت مار دئیے‘ باپ نے دوسرے ہاتھ والے سیب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہاتھ بڑھایا کہ وہ سیب بچہ سے لے لے‘ دیکھتے ہی دیکھتے بچہ نے دوسرے سیب کو بھی دانت سے کاٹ لیا‘ باپ غصہ میں آگیا اور بچہ کو گالیاں دینے اور مارنے پر آمادہ ہوا‘ معصوم بچے نے محبت سے داہنے ہاتھ کا سیب بڑھاتے ہوئے کہا: ’’پیارے ابو جان! آپ یہ سیب کھائیں‘ یہ زیادہ میٹھا ہے‘ دوسرے والا پھیکا ہے‘‘ باپ دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا‘ اور اس کا وجود ہل گیا‘ ننھا سا بچہ جس کے پاس بھلائی محبت اور خیر کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں‘ میں اس کے بارے میں کس قدر غلط فہمی میں مبتلا ہوگیا تھا‘ وہ معصوم یہ دیکھ رہا تھا کہ دونوں میں میٹھا اور اچھا سیب کون سا ہے تاکہ اس کا باپ اچھا سیب کھاسکے۔زندگی میں روز ہم اس طرح کے حالات سے گزرتے ہیں کہ جلد بازی اور صبروتحمل سے عاری ہوکر دوستوں‘ عزیزوں اور بھولے معصوم بچوں کو بھی منفی عینک سے دیکھ کر انفعال میں‘ جذبات میں آکر سخت فیصلے کرلیتے ہیں‘ حالانکہ ہم داعی اور حامل قرآن امت ہیں اور قرآن نے ہمیں صبرو تحمل کی کس قدر اہمیت بتائی ہے‘ ہم اپنی منفی سوچ اور جلدبازی میں لیے گئے فیصلوں سے بنے ہوئے کاموں کو بگاڑ لیتے ہیں‘ کبھی کبھی اپنے قیمتی اور محبت بھرے پاکیزہ رشتوں کو بگاڑ بلکہ توڑ لیتے ہیں ہم میں سے ہر ایک کی زندگی میں کتنے ایسے مواقع آتے ہیں خود اس حقیر کو کتنی بار سابقہ پڑا ہے کہ اپنے اور بعض قریبی دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ بھی اس حقیر نے ایسے حالات دیکھے ہیں کہ اس حقیر نے یا کچھ بہی خواہ عزیزوں نے آخری درجہ میں محبت اور خیرخواہی میں بڑی قربانی کے جذبہ سے کوئی بات کی اور دوسرے عزیز کی منفی سوچ کی وجہ سے سازش سمجھ کر بجائے احسان مندی کے وہ برہم ہوگیا اور بعض دفعہ قریبی رشتوں میں کھٹاس پیدا ہوگئی قربان جائیے اس رب کریم کی عنایات پر کہ کیسی محبت سے ہمیں محبت کے اصول سکھائے یاایھا الذین امنوا اجتنبوا کثیرا من الظن‘ ان بعض الظن اثم۔ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے داعی امت بنا کر خیرامت کا عظیم منصب عطا فرمایا‘ ہم جلدبازی‘ منفی سوچ اور انفعال میں نہ صرف کام کا ماحول اور حالات بگاڑ دیتے ہیں بلکہ کبھی کبھی دوسروں کی ہدایت کیلئے رکاوٹ بن جاتے ہیں‘ اس لیے دعوت کا اہم اصول یہ ہے کہ جہاں داعی کا اپنی دعوت میں مخلص ہونا ضروری ہے وہیں اس کے اندر کی آواز ایثار کی اس صدا سے ہم آہنگ بھی ہو: مااسئلک علیہ من اجر۔اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اپنے مدعو کو مخلص جانے‘ داعی اپنے مدعو کو سازشی اور جان بوجھ کر دشمنی اور چالاکی کرنے والا سمجھے گا تو دعوت کی راہ اس لمحہ مسدود ہوجائے گی‘ مدعو کی تمام باتوں کو نادانی اور معصوم بچہ کی نادانی میں دونوں سیب کاٹنے کی خیرخواہی سمجھنا آجائے گا تو پھر اس کی حرکتوں پر اس باپ کی طرح ہی پیار آئے گا اور پھر آسمان سے ہدایت کے دروازے کھلیں گے آخری درجہ میں بھی دشمنی اور سازشوں میں جب تک غیریت‘ بیگانگی‘ غصہ اور انفعال سے دور ہوکر‘ اپنایت سے اپنا سمجھ کر اللھم اھد قومی فانھم لایعلمون کی دعائیں کرنا داعی امت کو نہیں آئے گا تب تک فتح مکہ اور ہدایت کی ہوائیں چلنے کے خواب دیکھنا عبث ہے۔ کاش ہم سمجھ سکتے!!!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں